Monday, June 17, 2013

Zafar Nasimi on Dr. Saleem Wahid Saleem


ڈاکٹر سلیم واحد سلیمؔ از ظفرؔ نسیمی
ڈاکٹر سلیم واحد سلیمؔ کی باوقار شخصیت اور ان کی شاعرانہ فنکاری ایران، ہندوستان اور پاکستان کے معاشرتی اور ادبی ماحول کی پروردہ ہے۔ آپ کے والد خلیفہ عبد الواحد کا تعلق غیر منقسمہ ہندوستان میں لاہور کے ایک صوفی صفت معزّز کشمیری گھرانے سے تھااور والدہ ایرانی تھیں جن کے ساےۂ عاطفت میں آپ نے تہران میں پرورش پائی۔ آپ کی مادری زبان فارسی تھی۔لیکن ۱؍ سال کی عمر میں والدہ کے انتقال کے بعد لاہور منتقل ہو گئے۔ تعلیم جاری رہی۔ لاہور میں منشی فاضل کی ڈگری حاصل کی پھر علی گڑھ سے B.U.M.Sاور لندن سے M.R.A.Sکرنے کے بعد یونیورسٹی ہاسپٹل علیگڑھ میں ہاؤس سرجن اور فزیشن رہے۔ یہیں آپ کا ادبی ذوق پروان چڑھا۔شعر کہنا شروع کیا اور مشاعروں میں شرکت کرنے لگے۔ اس اثنا میں ملک تقسیم ہو گیا اور سلیم صاحب سرحد کے اس پار ہو گئے۔ آپ نے سیال کوٹ اور لاہور میں میڈیکل پریکٹس جاری رکھی لیکن اردو فارسی کی غیر معمولی قابلیت کی بدولت آپ کو BBC لندن کی اردو فارسی سروس میں خدمت کا موقعہ مل گیا۔
۱۹۵۰ ؁ء میں سلیم صاحب ترقی پسند تحریک میں شامل ہو کر اپنا ایک خاص مقام بنا چکے تھے لیکن ادب پر سیاست حاوی ہونے کی وجہ سے آپ کی آزاد خیالی اور انقلابی سوچ حکومت کی نظر میں جرم بن گئی۔ پھر ایسے مواقع بھی آئے جب عملی سیاست میں حصہّ لیتے ہوئے جنرل ایوب خاں کے دور میں مارشل لا کے خلاف بغاوت کی اور گیارہ دن کی مسلسل بھوک ہڑتال کی صعوبت برداشت کی۔ ۱۹۶۰ ؁ء میں آپ نے تزک جہانگیری کا فارسی سے اردو میں ترجمہ کیا جو کافی مقبول ہوا۔ عربی اور انگریزی پر بھی کافی دسترس حاصل کی۔ سلیم صاحب کے ارد گرد علم دوست مدّاحوں ، ادیبوں ، شاعروں اور پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسروں کا مجمع رہتا تھا۔ آپ کی غزلیں اور نظمیں ارباب ادب میں کافی مقبول تھیں۔


ڈاکٹر سلیمؔ واحد سلیم کا سب سے بڑا کارنامہ عمر خیام کی رباعیوں کا منظوم ترجمہ ہے جسے ’’خیامِ نو‘‘ کے عنوان سے سانجھ پبلی کیشنز لاہور نے ۲۰۱۱؍ میں شائع کیا ہے۔
سلیم ؔ صاحب کا انتقال ۱۹۸۱ ؁ء کو لاہور میں ہوا۔ آپ نے اردو اور فارسی غزلوں کا بڑا ذخیرہ چھوڑا ہے۔ اس کے علاوہ ترقی پسند شاعر کی حیثیت سے جذباتی آزاد نظمیں بھی لکھی ہیں۔ ان کی غزلوں میں روایتی تغزل کے ساتھ نئے دور کی آہٹیں بھی محسوس ہوتی ہیں۔ اشعار سنجیدہ اور معنی خیز ہیں۔ شائستگی اور سنجیدگی کے ساتھ منائع و بدائع کا خاص اہتمام کرتے ہیں:
برق پا جوانی تھی زندگی بھی فانی تھی ؍ پھر بھی تیری چاہت میں لطف بے بہا پا یا
چہرہ گل پر ہجوم اشک شبنم بھی تو دیکھ ؍ اہل غم پر کر نظر عشرت کے ماروں پر نہ جا
امتزاج رنگ و بو وہ بھی سیراب اندر سیراب ؍ فطرت رنگیں کے رنگیں شکاہکاروں پر نہ جا
وہی سب سے زیادہ حال دل سے بے خبر نکلے ؍ جنھیں سب سے زیادہ حال دل سے باخبر جانا
دنیا میں درد عشق غم جاوداں تو ہے ؍ مانا غم حیات غم جاوداں نہیں
ناصح جنون عشق میں کیا مصلحت کا دخل ؍ اک جان کا زیاں ہے سو کوئی زیاں نہیں
ہر ایک ہجر کے صدمے تو سہہ نہیں سکتا ؍ کئی فراق کے صدمے سے مر بھی جاتے ہیں
اشتراکیت سے متاثّر ہوتے ہوئے بھی انھوں نے اس فلسفہ کو کہیں کہیں غزل میں جگہ دی ہے اورتغزل کی طرف لوٹ آئے ہیں۔مثال کے طور پر:
حق بات بہر حال نکالیں گے لبوں سے ؍ نبٹیں گے بہر گام خوشامد طلبوں سے
سلیمؔ اب شہر کے رکھوالے جتنے ہیں نرالے ہیں ؍ کہ جتنی بار بھی لوٹا غریبوں کا نگر لوٹا
سلیمؔ صاحب کا پورا کلام حسن و عشق کے جذبات سے لبریز ہے۔ دو چار شعراور ملاحظہ فرمائیں:
تم ہی تجل�ئرخسار لے کے آجاؤ ؍ کہ آج شمع مسرت بہت ہی مدھم ہے
ہر ورق زر دہے کہاں جائیں ؍ ہر کلی سرد ہے کہاں جائیں
وہ حسینہ وفا کے آنگن میں ؍ دشمن مرد ہے کہاں جائیں
اگر جہاں میں محبت گناہ ہے زاہد ؍ تو پھر خدا کی قسم کوئی پاکباز نہیں
سلیم صاحب کے کلام میں یاس و حسرت کے بجائے ہمت و حوصلہ کا مضمون جا بجا ملتا ہے۔ ان کی جدوجہد بھری زندگی اس کا عملی ثبوت ہے:
حوادث غم دوراں سے ہم کبھی نہ ڈرے ؍ بھنور میں ڈال دی کشتی کہ ہر چہ باداباد
زندگی موت سے بدتر ہوئی جاتی ہے سلیمؔ ؍ لیکن اب بھی وہی جینے کی ہوس باقی ہے
اس مختصر مضمون میں ان کی آزاد نظموں کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا لیکن مندرجہ ذیل دو نظموں سے ان کے احساس کی گہرائی اور جذبات کی گیرائی کااندازہ ضرور ہو جائیگا۔ ’’ روح عصر‘‘ کے عنوان سے ایک نظم میں انسان کی عظمت اس طرح بیان کرتے ہیں:
اگر تم ایک دشت بیکراں ہو جس کا ہر ذرّہ ؍ جہان تشنگی ہو تو بھی کیا غم ہے ؍ میں دریا بن کر ہر ذرّے کو سیرابی سے اک گلشن بنا دوں گا ؍ ببولوں کو مہک ؍ ذرّوں کو تابش کی متاع بے بہا دوں گا ؍ نشان راہ ہوں، منزل ہوں، جادہ ہوں ؍ وفا کا جان دادہ ہوں ؍ میں سیل بیکراں بھی ہوں ؍ تری شادابیوں کا اک نشان جاوداں بھی ہوں ؍ کہ میں انسانیت کے لشکر فتح و ظفر کا ؍ اک پیادہ ہوں ؍ میں روح عصر ہوں ؍ میں وقت کی آواز ہوں ؍ ناقابل تسخیر انساں ہوں
دوسری نظم ’’ایک پہیلی‘‘ در حقیقت پہیلی نہ ہوتے ہوئے اس دور میں صنف نازک کی انقلاب آفریں جد و جہد کی مختصر سی داستان ہے جو تاریخ کا حصہ بن گئی ہے:
ایک نازک سی رقص آفریں نازنیں؍ تازیانوں کو چیلنج کرنے لگی
قہر کے بیڑے حرکت میں آنے لگے؍ باد بانوں کو چیلنج کرنے لگی
قصر آبی میں ، خشکی کے ایوان میں ؍ مسند اختیارات ہلنے لگی
تھر تھری سی مچی آن میں شان میں ؍ ناخداؤں میں سرگوشیاں چل پڑیں
کسقدر زور اک جان نازک میں ہے ؍ آتش سیل میدان نازک میں ہے
جو زمانہ پاکستان میں سلیم صاحب کی شہرت اور مقبولیت کا تھا اس دور میں ہند و پاک کی ادبی تخلیقات میں بھی عصبیت کی درار قائم تھی۔ آج وقت آگیا ہے کہ ہم دونوں ملکوں کے باکمال ادیبوں اور شاعروں کی یادیں تازہ کریں۔
’’ گاہے گاہے باز خواں ایں قصہۂ پارینہ را‘‘ 


No comments:

Post a Comment